جس طرح نماز میں اپنی مرضی نہیں‘ نماز کی کسی حالت میں‘ کسی رکن میں اپنی مرضی نہیں ‘(نماز کے مجموعے کو ارکان نماز کہتے ہیں )نماز کے ہر رکن میں اپنی مرضی نہیں ہے اور دیکھو نماز ایک حالت کا نام نہیں ہے حالتوں کے بدلنے کا نا م نماز ہے۔ قیام میں ایک حالت تھی اب رکوع میں حالت مختلف ہوگئی‘ اب قیام کے بعد ہماری نظروں کی حالت کیا ہو گی ہمارے اندر کی حالت کیا ہو گی‘ ہمارے باہر کی حالت کیا ہوگی ان ساری حالتوں میں اللہ کا حکم متوجہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں اپنی مرضی ایک پل بھی نہیں‘ ایک قدم بھی نہیں‘ اندر کی مرضی بھی نہیں‘ باہر کی مرضی بھی نہیں.... نماز کے اندر کا نام خشوع ہے اور نماز کے باہر کا نام خضوع ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں آئونماز کےلئے تاکہ تجھے میں اپنے حکم بتاﺅں اپنی مرضی بتاﺅں اب نماز میں تجھے اپنی مرضی کی مشق کراکے بھیج رہا ہوں بازار جائو ‘ گھر یا دفتر میں جاﺅ وہاں بھی جا کر اپنی مرضی نہیں کرنی یہ صفت صلوٰة ہے اپنی زندگی کو صفت صلوٰة میں ڈھالو۔
ایک امام کی اقتداء
اب دیکھیں اللہ جل شانہ سب سے بڑے حکیم ہیں‘ تدبر والے‘ حکمت والے‘ دانائیوں والے‘ سمجھ والے‘ اللہ پاک فرماتے ہیں‘ بندہ غافل ہے پھر کہیں بھول نہ جائے‘ صبح اٹھتے ہی اللہ پاک نے فرمایا اچھا شاید تیری رات میں کوئی غفلت ہوگئی ہو اب صبح اٹھتے ہی تجھے ہم یہ بتارہے ہیں دیکھ صفت صلوٰة میں سارا دن گزارنا ہے ‘نماز میں تیری مرضی نہیں نماز میں ہماری مرضی ہے اور دیکھ نماز میں امام ایک اشارہ کرتا ہے اللہ اکبر اشارہ ہے وضاحت کچھ بھی نہیں ہے کوئی logicنہیں ہے کہ میں اللہ کو کیوں کہہ رہا ہوں اور نمازی بالکل نہیں پوچھتا کوئی وضاحت‘ بس امام کہتا ہے اللہ اکبر اور رکوع میں جاتے وقت اللہ اکبر اور سجدے میں اللہ اکبر اور سجدے سے اٹھ رہا ہے اللہ اکبر یعنی اللہ اکبر کہتے کہتے نماز کی تکمےل ہو رہی ہے جس طرح نماز میں ایک امام کی چلتی ہے اس طرح نماز کے بعد بھی ایک حاکم کی چلتی ہے اور وہ کون ہے؟ وہ ہے اللہ جل شانہ اور وہ ایک امام کون ہیں وہ ہیں کملی والے حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں ایک کے حکم پر توجہ‘ نماز کے بعد ایک کے حکم پر توجہ‘ ایک نماز کے اندر نماز کے باہر.... نماز تجھے سکھانا چاہتی ہے زندگی کے شب و روز کیسے گزارنے ہیں۔
ترقی کا معیار
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہم سے زیادہ عقلمند تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نماز کو دیکھ کے گورنر بنا دیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مزاج تھا نمازیوں کی نماز دیکھتے تھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی نماز دیکھتے تھے اور جس کی نماز کامل دیکھتے تھے اس کو گورنر بنادیتے تھے۔ نماز ان کے سامنے معیار تھا اور جانتے تھے کہ اگر اس کی نماز جاندار ہے نماز کا اندر جاندار ہے نماز کا باہر شاندار ہے تو اس کی زندگی‘ بیوی کی زندگی‘ بچوں کی زندگی‘ ماں کے ساتھ‘ بہنوں کے ساتھ‘ معاشرے کے ساتھ ‘یہ زندگی بھی اسکی انشاءاللہ شاندار ہو گی اور بعض ایسے لوگ ہوتے تھے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے نماز پڑھتے ہوئے جھجکتے تھے ایک صاحب نے دیکھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ دیکھ رہے ہیں کہنے لگے عمر رضی اللہ عنہ میں اس قابل نہیں ہوں تجھے اللہ کا واسطہ مجھے گورنر نہ بنانا‘ پتہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے میری نماز دیکھ لی ہے اور ان کو فلاں فلاں علاقے کا گورنر چاہیے اور یہ انتظار میں ہیں کہ کس کو گورنر بناﺅں یعنی ایمان والوں کا عالم یہ تھا وہ عہدوں سے اتنا گھبراتے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے نماز ہی نہیں پڑھتے تھے۔ ایک طرف ہٹ کر پڑھتے تھے کہیں امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ ہماری نماز نہ دیکھ لیں۔ نماز میرے دوستو زندگی کا ساتھی ہے صفت صلوٰة پر اپنی مرضی زندگی کو لانا ہے صفت صلوٰة پر اپنی زندگی کے لمحات کو لانا ہے نماز میں نظریں کہاں ہیں فرمایا جو نماز میں نظروں کی حفاظت کرتا ہے اسے نماز کے بعد نظروں کی حفاظت کی توفےق ملے گی اور یاد رکھنا جس نے اپنے ایمان کو جانچنا ہے کہ میرے اندر ایمان کتنا ہے اور ایمان کام آئے گا‘ موت کے بعد ایمان کام آئے‘ فرشتوں کی ملاقات کے بعد ایمان کلمہ یاد دلائے گا‘ میزان کے وقت ایمان کام آئےگا‘ نکیرین کے سوال و جواب کے وقت ایمان کام آئے گا‘ نزع کے وقت اور ایمان کلمہ یاد لائے گا اور ایمان قیامت کے دن سوالوں کے جواب یاد دلائے گا اور قبر کے تین سوال کے جواب یاد دلائے گا کسی نے دیکھنا ہے کہ میرا ایمان کتنا ہے فرمایا دو رکعت نماز نفل پڑھ لے ایمان کا پتہ چل جائے گا کہ نماز میں کتنا دھیا ن ہے اور نماز میں کتنی توجہ ہے اور نماز میں اللہ جل شانہ کی طرف کتنا تعلق ہے ایمان کا پتہ چل جائے گا اور اگر نماز میں سوائے اللہ کے باقی سب کا تصور ہو یعنی کتنی افسوسناک بات ہے نماز اللہ کےلئے لیکن نماز میں اللہ کے سوا سب کچھ ہے اللہ ہے ہی نہیں اب اگر تجھے نماز کے اندر ایمان کا پتہ چل گیا پھر غافل ایساکہ دنیا بنانے کی کوشش کر رہا‘ جان بنانے کی کوشش کر رہا مگرایمان بنانے کی کوشش نہیں کر رہا۔ صبح ہم لارنس گارڈن گئے تو میرے ساتھ دوست تھے لوگ وہاں ورزش کر رہے تھے کوئی دوڑ رہا تھا کوئی تیز تیز سانس لے رہا تھا میں نے کہا دیکھو یہ جان بنانے کی محنت ہو رہی ہے‘ کھانا جان کے لئے ‘سونا جان کے لئے ‘اٹھنا جان کے لئے ‘کہتے ہیں جان بنانے کے لئے محنت کر رہے ہیںتو جناب ایمان بنانے کی محنت کہاں جائے گی؟ ارے جان تو بڑی بے وفا ہے یہ تو ہمارا ساتھ چھوڑ جائے گی اور ایمان تو وفا والا ہے یہ تو موت کے وقت کام آئے گا۔ مرنے کے بعد کی ساری گھڑیوں میں یہی ایمان کام آئے گا۔ صفت صلوة سے ایمان بنے گا نماز کی زندگی کیسی ؟نماز کے باہر کی زندگی کیسی؟ پھر اللہ پاک نے فرمایا انسان غافل ہے تھوڑا سا انسان کا مادہ نسیان میں سے ہے نسیان کے معنی ہیں بھول جانا یہ ( انسان ) ذرا بھول جاتا ہے۔(جاری ہے)
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 879
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں